Kyra

Imran Khan Official

US
en
Followers
11.5m
Average Views
205.0k
Engagement Rate
28.8%
Loading...
Performance
Related Profiles
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: پوری پارٹی کو ہدایت کرتا ہوں کہ 8 فروری کو یوم سیاہ  منایا جائے۔ اس کی تیاریاں آج  سے ہی شروع کی جائیں۔  جس شخص نے تحریک انصاف سے بلے کا نشان اور الیکشن  چھیننے کی کوشش کی وہ تاریخ کے تاریک قبرستان میں گم ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت بھی  کل ختم ہو رہی ہے۔  اگر آرٹیکل6 اس ملک میں  کسی پر لگنا چاہیے تو  وہ سکندر سلطان راجہ ہے ۔ اس نے عوام کے مینڈیٹ کو چوری کیا  اور قاضی فائز عیسی نے اس انتخابی فراڈ کو تحفظ فراہم کیا۔    ہمارا مقصد پاکستان میں شفاف انتخابات،آئین اور جمہوریت کی بحالی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں ملک میں جمہوریت بحال ہو اور قانون کی حکمرانی واپس آئے ۔ملک میں معطل بنیادی انسانی حقوق دوبارہ بحال ہوں۔   سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونا قابل مذمت ہے۔ اگر ہاؤس اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتا تو میں یہ کہنے میں مکمل حق بجانب ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت، آئین اور قانون کا مکمل جنازہ نکل چکا ہے۔ عدلیہ ، پولیس ، ایجنسیوں، ایف آئی اے سب کو اپنے اصل کاموں سے ہٹا کر صرف اور صرف تحریک انصاف کو کچلنے پر لگا دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک آمر کا حکم ہی ملک میں قانون ہے، جبکہ آئین اور منتخب نمائندوں کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ۔  انصاف کی فراہمی کسی بھی مملکت کو چلانے کے لئے بنیادی تقاضہ ہوتا ہے ۔ مگر یہاں 26 ویں آئینی ترمیم کر کے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے ہیں ۔پاکستان کی اعلی ترین عدالت کو نگیں کر دیا گیا ہے اور کورٹ پیکنگ( ججز کی تعداد میں اضافہ ) کی جا رہی ہے۔ صرف مجھے سزا دینے پر ججز کو نوازا جا رہا ہے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکا تقرر کیا گیا ہے۔  قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ میں انصاف کا بالکل قتل عام کر کہ رکھ دیا تھا ۔ اس کے بعد عدلیہ سے انصاف کی توقع ختم ہو چکی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ بنیادی شہری اور انسانی حقوق کا دفاع کرے۔ سویلین کے ملٹری ٹرائل کی بین الاقوامی اور ملکی قوانین میں کوئی گنجائش نہیں ۔ ہمارا دوسرا مطالبہ ہے کہ 26 نومبر اور نو مئی کے  واقعات کی جوڈیشل کمیشن کے ذریع آزاد انکوائری کروائی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان واقعات کا ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے نو مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کی ہے۔ حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی مخالفت کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی، ماسوائے اس کے کہ وہ خود اس واقع  میں شامل ہے۔ میں نے اسد قیصر اور عمر ایوب کو اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کر کے انہیں مذاکراتی عمل اور ہماری سیاسی پوزیشن سے متعلق اعتماد میں لیا جائے۔۔۔ فارم 47 کے تحت وجود میں آنے والی حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتی۔ پورے پاکستان میں بلوچستان ماڈل نافذ کر دیا گیا ہے ۔  جب تک بلوچستان میں منتخب لوگوں کی حکومت نہیں آئے گی حالات پرسکون نہیں ہوں گے۔ بلوچستان میں ریاستی ظلم قابل مذمت ہے۔ عوامی مسائل کا حل کبھی بھی بندوق اور فوج نہیں ہوتا، یہی معاملہ اب باقی ماندہ ملک کا بھی ہے۔  مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے القادر جیسے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ پاکستان میں جنہوں نے اربوں روپے چوری کئے وہی حکمران بن گئے ہیں صرف اس لیے کہ انہوں نے ڈیل کی۔ نواز شریف کے بیٹے نے نو ارب کا فلیٹ ملک ریاض کو 18 ارب روپے میں بیچا۔ سوال تو یہ ہے کہ نواز شریف کے بیٹے کے پاس نو ارب روپے کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔ قاضی فائز عیسی کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔ نیب ترامیم بحال کر کے قاضی فائز عیسی نے میوچل لیگل اسسٹنس کی قانونی حیثیت کو ختم کیا کیونکہ وہ خود اس کے بینیفیشری تھے۔ قاضی فائز عیسی کی لندن میں جو پراپرٹیز ہیں اس کا انہوں نے حساب نہیں دیا۔ نواز شریف کے پاس نو ارب روپیہ کہاں سے آیا اس کا ہم حساب مانگتے ہیں۔ یہ مافیا ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کے لیے ہمیشہ ایک ہو جاتا ہے۔ یہی پاکستان کے سٹیٹس کو اور تحریک انصاف میں فرق ہے۔ مجھے بھی ڈیل آفر ہوئی مگر جب میں نے کوئی چوری ہی نہیں کی تو سمجھوتا کیوں کروں؟ میں آخری دم تک ڈیل نہیں کروں گا۔
پوری پارٹی کو ہدایت کرتا ہوں کہ 8 فروری کو یوم سیاہ منایا جائے۔ اس کی تیاریاں آج سے ہی شروع کی جائیں۔ جس شخص نے تحریک انصاف سے بلے کا نشان اور الیکشن چھیننے کی کوشش کی وہ تاریخ کے تاریک قبرستان میں گم ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت بھی کل ختم ہو رہی ہے۔ اگر آرٹیکل6 اس ملک میں کسی پر لگنا چاہیے تو وہ سکندر سلطان راجہ ہے ۔ اس نے عوام کے مینڈیٹ کو چوری کیا اور قاضی فائز عیسی نے اس انتخابی فراڈ کو تحفظ فراہم کیا۔ ہمارا مقصد پاکستان میں شفاف انتخابات،آئین اور جمہوریت کی بحالی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں ملک میں جمہوریت بحال ہو اور قانون کی حکمرانی واپس آئے ۔ملک میں معطل بنیادی انسانی حقوق دوبارہ بحال ہوں۔ سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونا قابل مذمت ہے۔ اگر ہاؤس اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتا تو میں یہ کہنے میں مکمل حق بجانب ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت، آئین اور قانون کا مکمل جنازہ نکل چکا ہے۔ عدلیہ ، پولیس ، ایجنسیوں، ایف آئی اے سب کو اپنے اصل کاموں سے ہٹا کر صرف اور صرف تحریک انصاف کو کچلنے پر لگا دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک آمر کا حکم ہی ملک میں قانون ہے، جبکہ آئین اور منتخب نمائندوں کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ۔ انصاف کی فراہمی کسی بھی مملکت کو چلانے کے لئے بنیادی تقاضہ ہوتا ہے ۔ مگر یہاں 26 ویں آئینی ترمیم کر کے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے ہیں ۔پاکستان کی اعلی ترین عدالت کو نگیں کر دیا گیا ہے اور کورٹ پیکنگ( ججز کی تعداد میں اضافہ ) کی جا رہی ہے۔ صرف مجھے سزا دینے پر ججز کو نوازا جا رہا ہے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکا تقرر کیا گیا ہے۔ قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ میں انصاف کا بالکل قتل عام کر کہ رکھ دیا تھا ۔ اس کے بعد عدلیہ سے انصاف کی توقع ختم ہو چکی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ بنیادی شہری اور انسانی حقوق کا دفاع کرے۔ سویلین کے ملٹری ٹرائل کی بین الاقوامی اور ملکی قوانین میں کوئی گنجائش نہیں ۔ ہمارا دوسرا مطالبہ ہے کہ 26 نومبر اور نو مئی کے واقعات کی جوڈیشل کمیشن کے ذریع آزاد انکوائری کروائی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان واقعات کا ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے نو مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کی ہے۔ حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی مخالفت کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی، ماسوائے اس کے کہ وہ خود اس واقع میں شامل ہے۔ میں نے اسد قیصر اور عمر ایوب کو اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کر کے انہیں مذاکراتی عمل اور ہماری سیاسی پوزیشن سے متعلق اعتماد میں لیا جائے۔۔۔ فارم 47 کے تحت وجود میں آنے والی حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتی۔ پورے پاکستان میں بلوچستان ماڈل نافذ کر دیا گیا ہے ۔ جب تک بلوچستان میں منتخب لوگوں کی حکومت نہیں آئے گی حالات پرسکون نہیں ہوں گے۔ بلوچستان میں ریاستی ظلم قابل مذمت ہے۔ عوامی مسائل کا حل کبھی بھی بندوق اور فوج نہیں ہوتا، یہی معاملہ اب باقی ماندہ ملک کا بھی ہے۔ مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لیے القادر جیسے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ پاکستان میں جنہوں نے اربوں روپے چوری کئے وہی حکمران بن گئے ہیں صرف اس لیے کہ انہوں نے ڈیل کی۔ نواز شریف کے بیٹے نے نو ارب کا فلیٹ ملک ریاض کو 18 ارب روپے میں بیچا۔ سوال تو یہ ہے کہ نواز شریف کے بیٹے کے پاس نو ارب روپے کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔ قاضی فائز عیسی کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔ نیب ترامیم بحال کر کے قاضی فائز عیسی نے میوچل لیگل اسسٹنس کی قانونی حیثیت کو ختم کیا کیونکہ وہ خود اس کے بینیفیشری تھے۔ قاضی فائز عیسی کی لندن میں جو پراپرٹیز ہیں اس کا انہوں نے حساب نہیں دیا۔ نواز شریف کے پاس نو ارب روپیہ کہاں سے آیا اس کا ہم حساب مانگتے ہیں۔ یہ مافیا ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کے لیے ہمیشہ ایک ہو جاتا ہے۔ یہی پاکستان کے سٹیٹس کو اور تحریک انصاف میں فرق ہے۔ مجھے بھی ڈیل آفر ہوئی مگر جب میں نے کوئی چوری ہی نہیں کی تو سمجھوتا کیوں کروں؟ میں آخری دم تک ڈیل نہیں کروں گا۔
733.6k
24.27%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: 13 جنوری 2024 کو تحریک انصاف کو عملاً ختم کرنے کی نیت سے انتخابی نشان سے محروم کرنے والا قاضی فائز عیسیٰ آج تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے جبکہ تحریک انصاف اور عمران خان اپنے نظریے کے ساتھ آج بھی پورے قد سے کھڑے ہیں۔ بلاشبہ جھوٹ اور بد دیانتی کی عمر ہمیشہ تھوڑی ہوتی ہے اور سچ ہمیشہ رہنے والا ہوتا ہے۔  القادر ٹرسٹ کیس میں جج صریحا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔ القادر کیس کا ٹرائل ہمیشہ 11:30 سے 12 بجے کے درمیان شروع ہوتا ہے۔ کل بھی اس کیس کی سماعت کے لیے 11 بجے کا وقت مقرر تھا لیکن میرے وکلاء کی آمد سے بھی قبل قریباً 9 بجے مجھے اطلاع دی گئی کہ جج صاحب آ گئے ہیں۔ میری نقل و حرکت جیل تک محدود ہوتی ہے اور میرا قانونی حق تھا کہ میں وکلاء کے ہمراہ عدالت میں پیش ہو سکتا جن کو عدالت کی جانب سے 11 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ پہلے دو مقدمات میں جج ابولحسنات اور محمد بشیر میری عدم موجودگی میں فیصلہ سنا چکے ہیں بالکل اسی طرح اس کیس کا فیصلہ بھی سنایا جا سکتا تھا مگر میری عدم موجودگی کا جواز بنا کر فیصلہ موخر کر دینا انتہائی مضحکہ خیز اور عدالتی نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔  القادر ٹرسٹ کیس کا آغاز تب ہوا تھا جب حسن نواز شریف نے 9 ارب روپے کی پراپرٹی 18 ارب روپے میں ملک ریاض فیملی کو بیچی اور این سی اے نے مشتبہ ٹرانزیکشن پر کاروائی کا آغاز کیا ۔ این سی اے نے ہی ان سے سوال کیا کہ یہ جائیداد دگنی قیمت پر کیوں فروخت کی گئی ۔ سب سے پہلے تو نواز شریف اپنے بیٹے کا جواب دے کہ یہ 9 ارب روپیہ اضافی کس طرح انکے بیٹے نے ملک ریاض سے حاصل کیا ؟  جہاں تک ہمارے دور میں کابینہ کی اس حوالے سے ذمہ داری کا تعلق ہے تو یہ رقم براہ راست این سی اے نے ملک ریاض فیملی کے ذریعے پاکستان منتقل کی تھی اور ہمارا فرض صرف مخفی رکھنے کے اس معاہدے کو برقرار رکھنا تھا اور ہم نے پاکستان کے فائدے کے لیے منظوری دی کیونکہ اس سے پہلے ایک ساتھ پاکستان میں اتنی رقم کبھی نہیں آئی تھی۔  القادر ٹرسٹ کا اس رقم سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ ٹرسٹ تو اس رقم کی آمد سے ایک سال قبل ہی قائم ہو چکا تھا اور اسکا مقصد صرف اور صرف دور دراز کے طلبا کو سیرت النبی ﷺ کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم دے کر انکے لیے علم کی شمع روشن کرنا تھا ۔ القادر ٹرسٹ سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں ہے ۔ یہ ٹرسٹ شوکت خانم اور نمل کی طرز پر ایک فلاحی ادارہ ہے ۔ اس کو اگر بند بھی کر دیا جاتا ہے تو یہ رقم ان افراد کو واپس جائے گی جو اسکے donors ہیں مجھے اس رقم سے کوئی فائدہ ہے نہ نقصان۔  میں واضح کر دوں کہ میں کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کروں گا چاہے یہ جو بھی حربے استعمال کر لیں میں کوئی نواز شریف نہیں ہوں جس نے اپنے اربوں کے کرپشن کیسز معاف کروانے ہیں ۔ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے اور میں اپنی قوم کے لیے ہمیشہ کھڑا رہوں گا ۔ پاکستان میں سیاسی قیدیوں سے بدترین سلوک جاری ہے ۔ ملٹری تحویل میں ہمارے کارکنان کو سخت ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا یے ۔ میرے ساتھ بھی بدترین سلوک کیا گیا ۔ سمیع وزیر سمیت دیگر کئی کارکنان پر بیہیمانہ تشدد کیا گیا ۔ ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی اس قانون اور انسانی حقوق کی پامالی پر ایکشن لیں۔ ہم اس حوالے سے سپریم کورٹ ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دے چکے ہیں مگر کہیں ہماری شنوائی نہیں ہوئی- ہمارے پاس بین الاقوامی فورمز پر آواز بلند کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے ۔ اس حوالے سے میں عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو ایک خط بھی لکھوں گا تا کہ ان بے قصور شہریوں  کی شنوائی ہو ۔ میرا اوورسیز پاکستانیوں سے بھی مطالبہ ہے کہ اس حوالے سے اپنی آواز بلند کریں ۔ ملک میں تحریک انصاف کو کچلتے کچلتے پورے نظام کو ہی روند دیا گیا ہے ۔ ملک میں معیشت کا حال بدترین ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے ۔ ایس آئی ایف سی اور اڑان پروگرام بری طرح ناکام ہوئے ہیں ۔ گروتھ ریٹ نہ بڑھنے سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، شاندار دماغ اور سرمایہ ملک سے تیزی سے باہر جا رہا ہے کیونکہ کسی کو اس ملک کے استحکام  پر یقین نہیں رہا ۔ پاکستانی کمپنیاں اپنا کاروبار دبئی منتقل کر رہی ہیں ۔ ایسے ملک میں کبھی معاشی استحکام آ ہی نہیں سکتا جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو ۔ پاکستان معاشی بحران میں دب چکا ہے اور جب تک عوامی اعتماد کی حامل حکومت نہ لائی گئی۔ اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔
13 جنوری 2024 کو تحریک انصاف کو عملاً ختم کرنے کی نیت سے انتخابی نشان سے محروم کرنے والا قاضی فائز عیسیٰ آج تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے جبکہ تحریک انصاف اور عمران خان اپنے نظریے کے ساتھ آج بھی پورے قد سے کھڑے ہیں۔ بلاشبہ جھوٹ اور بد دیانتی کی عمر ہمیشہ تھوڑی ہوتی ہے اور سچ ہمیشہ رہنے والا ہوتا ہے۔ القادر ٹرسٹ کیس میں جج صریحا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔ القادر کیس کا ٹرائل ہمیشہ 11:30 سے 12 بجے کے درمیان شروع ہوتا ہے۔ کل بھی اس کیس کی سماعت کے لیے 11 بجے کا وقت مقرر تھا لیکن میرے وکلاء کی آمد سے بھی قبل قریباً 9 بجے مجھے اطلاع دی گئی کہ جج صاحب آ گئے ہیں۔ میری نقل و حرکت جیل تک محدود ہوتی ہے اور میرا قانونی حق تھا کہ میں وکلاء کے ہمراہ عدالت میں پیش ہو سکتا جن کو عدالت کی جانب سے 11 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ پہلے دو مقدمات میں جج ابولحسنات اور محمد بشیر میری عدم موجودگی میں فیصلہ سنا چکے ہیں بالکل اسی طرح اس کیس کا فیصلہ بھی سنایا جا سکتا تھا مگر میری عدم موجودگی کا جواز بنا کر فیصلہ موخر کر دینا انتہائی مضحکہ خیز اور عدالتی نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ القادر ٹرسٹ کیس کا آغاز تب ہوا تھا جب حسن نواز شریف نے 9 ارب روپے کی پراپرٹی 18 ارب روپے میں ملک ریاض فیملی کو بیچی اور این سی اے نے مشتبہ ٹرانزیکشن پر کاروائی کا آغاز کیا ۔ این سی اے نے ہی ان سے سوال کیا کہ یہ جائیداد دگنی قیمت پر کیوں فروخت کی گئی ۔ سب سے پہلے تو نواز شریف اپنے بیٹے کا جواب دے کہ یہ 9 ارب روپیہ اضافی کس طرح انکے بیٹے نے ملک ریاض سے حاصل کیا ؟ جہاں تک ہمارے دور میں کابینہ کی اس حوالے سے ذمہ داری کا تعلق ہے تو یہ رقم براہ راست این سی اے نے ملک ریاض فیملی کے ذریعے پاکستان منتقل کی تھی اور ہمارا فرض صرف مخفی رکھنے کے اس معاہدے کو برقرار رکھنا تھا اور ہم نے پاکستان کے فائدے کے لیے منظوری دی کیونکہ اس سے پہلے ایک ساتھ پاکستان میں اتنی رقم کبھی نہیں آئی تھی۔ القادر ٹرسٹ کا اس رقم سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ ٹرسٹ تو اس رقم کی آمد سے ایک سال قبل ہی قائم ہو چکا تھا اور اسکا مقصد صرف اور صرف دور دراز کے طلبا کو سیرت النبی ﷺ کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم دے کر انکے لیے علم کی شمع روشن کرنا تھا ۔ القادر ٹرسٹ سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں ہے ۔ یہ ٹرسٹ شوکت خانم اور نمل کی طرز پر ایک فلاحی ادارہ ہے ۔ اس کو اگر بند بھی کر دیا جاتا ہے تو یہ رقم ان افراد کو واپس جائے گی جو اسکے donors ہیں مجھے اس رقم سے کوئی فائدہ ہے نہ نقصان۔ میں واضح کر دوں کہ میں کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کروں گا چاہے یہ جو بھی حربے استعمال کر لیں میں کوئی نواز شریف نہیں ہوں جس نے اپنے اربوں کے کرپشن کیسز معاف کروانے ہیں ۔ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے اور میں اپنی قوم کے لیے ہمیشہ کھڑا رہوں گا ۔ پاکستان میں سیاسی قیدیوں سے بدترین سلوک جاری ہے ۔ ملٹری تحویل میں ہمارے کارکنان کو سخت ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا یے ۔ میرے ساتھ بھی بدترین سلوک کیا گیا ۔ سمیع وزیر سمیت دیگر کئی کارکنان پر بیہیمانہ تشدد کیا گیا ۔ ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی اس قانون اور انسانی حقوق کی پامالی پر ایکشن لیں۔ ہم اس حوالے سے سپریم کورٹ ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دے چکے ہیں مگر کہیں ہماری شنوائی نہیں ہوئی- ہمارے پاس بین الاقوامی فورمز پر آواز بلند کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے ۔ اس حوالے سے میں عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو ایک خط بھی لکھوں گا تا کہ ان بے قصور شہریوں کی شنوائی ہو ۔ میرا اوورسیز پاکستانیوں سے بھی مطالبہ ہے کہ اس حوالے سے اپنی آواز بلند کریں ۔ ملک میں تحریک انصاف کو کچلتے کچلتے پورے نظام کو ہی روند دیا گیا ہے ۔ ملک میں معیشت کا حال بدترین ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے ۔ ایس آئی ایف سی اور اڑان پروگرام بری طرح ناکام ہوئے ہیں ۔ گروتھ ریٹ نہ بڑھنے سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، شاندار دماغ اور سرمایہ ملک سے تیزی سے باہر جا رہا ہے کیونکہ کسی کو اس ملک کے استحکام پر یقین نہیں رہا ۔ پاکستانی کمپنیاں اپنا کاروبار دبئی منتقل کر رہی ہیں ۔ ایسے ملک میں کبھی معاشی استحکام آ ہی نہیں سکتا جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو ۔ پاکستان معاشی بحران میں دب چکا ہے اور جب تک عوامی اعتماد کی حامل حکومت نہ لائی گئی۔ اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔
586.3k
27.28%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: جو بھی نبی ﷺ کی سیرت کی پیروی کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔
جو بھی نبی ﷺ کی سیرت کی پیروی کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔
1.7m
33.18%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: اللّٰہ کے بعد اس ملک کے وارث عوام ہیں۔
اللّٰہ کے بعد اس ملک کے وارث عوام ہیں۔
981.0k
36.42%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: مذاکرات کے حوالے سے غیرسنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی سے میری میٹنگ تک نہیں کروائی گئی- ایسا لگتا ہے جیسے مذاکرات کا مقصد صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے تاکہ 26 نومبر کے اسلام آباد قتل عام پر عوامی ری ایکشن کو کم کیا جا سکے۔ 26 نومبر کو پرامن شہریوں کا قتل عام کیا گیا ، انکو سیدھی گولیاں مار کر ڈی چوک میں خون سے نہلایا گیا، ہمارے کئی افراد اب تک لاپتہ ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا واقعہ ہونے کے بعد گولیاں چلانے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے لیکن یہ حکومت ابھی تک ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں کر پائی۔ جوڈیشل کمیشن کی حیثیت تھرڈ امپائر کی ہوتی ہے اور صرف ایک غیرجانبدار کمیشن ہی 26 نومبر اور 9 مئی کے شہدا کو انصاف دلوا سکتا ہے اگر اس قتل عام کو دبا دیا گیا تو پاکستان  میں کسی کا جان و مال محفوظ نہیں ہو گا۔ میرا واضح پیغام ہے کہ اگر مذاکراتی عمل کو لے کر حکومت یونہی غیر سنجیدہ رہی اور جوڈیشل کمیشن نہ بنایا تو مذاکرات کو اگلی میٹنگ کے بعد روک دیا جائے۔ نو مئی کا فالس فلیگ آپریشن بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہی کیا گیا تھا۔ اس روز چوکیوں سے فوج اور پولیس ہٹا کر خود ہی آگ لگائی گئی اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی چرا لی گئی ۔ ہم ان دونوں واقعات کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں بارہا سپریم کورٹ سے بھی مطالبہ کیا ہے۔  تین سال سے اس ملک میں آئین و قانون اور انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے۔ لوگوں کے گھروں کا تقدس پامال کر کہ ان کو اغوا کیا جا رہا ہے، تشدد اور جبر کیا جا رہا ،انکے گھر اور کاروبار تباہ کیے گئے، میرا اپنا گھر دو مرتبہ توڑا گیا۔ ہم نے اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔ یہ کیس جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں  پانچ ججز نے سنا مگر ڈیڑھ سال سے اسکا فیصلہ محفوظ ہے اور سنایا نہیں گیا۔ پھر ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور سپریم کورٹ میں قاضی سے بھی رجوع کیا لیکن ان دونوں نے ہی اسٹیبلشمنٹ کے opening batsman کا کردار ادا کیا۔  ہمارے جو بے قصور لوگ ملٹری تحویل میں رہے ان پر شدید ترین ذہنی اور جسمانی  تشدد کیا گیا۔ میری اطلاع کے مطابق 3 لڑکوں نے دوران حراست خود کشی کی کوشش کی۔ سمیع وزیر کی حالت اس تشدد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس سے پہلے جو کچھ تحریک انصاف کے رہنماؤں شہباز گل ، اعظم سواتی سیمت دیگر کے ساتھ کیا گیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ظلِ شاہ کو بے دردی سے قتل کیا گیا ، انتظار پنجھوتہ سے جانوروں کی طرح سلوک کیا گیا۔ یہ کونسا اصول ہے کہ جو تحریک انصاف چھوڑ دے وہ 9 مئی کے الزام سے بری ہے اور جو نہ چھوڑے اس پر ہر قسم کا تشدد اور دباو جائز ہے؟ ہمیں پاکستانی نظام عدل سے بار بار رجوع کرنے کے باوجود بھی انصاف نہیں مل سکا جسکے بعد ہمارے پاس بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔  پاکستان کی حکومت انسانی حقوق کو لے کر بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پابند ہے میں نے وکلا کو ہدایت کی ہے ان معاملات کو عالمی فورمز پر اٹھایا جائے اور پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی آواز دنیا تک پہنچائی جائے ۔  میرا اوور سیز پاکستانیوں کو بھی یہی پیغام ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا خاتمہ کر کہ جنگل کا قانون نافذ کر دیا گیا ہے اسلیے آپ کی جانب سے ترسیلات زر کا بائیکاٹ بہت اہم ہے ۔ پاکستان میں مقیم آپ کے پیاروں کو بھی وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو آپ کو بیرون ممالک میں حاصل ہیں۔ جب تمام ایجنسیوں کو ایک سیاسی جماعت کو کچلنے پر لگا دیا جائے گا پھر دہشتگردوں سے کون لڑے گا ؟ یہی ریمارکس سپریم کورٹ کے ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مندوخیل نے بھی دیے کہ خفیہ اداروں کو سیاسی انجینئرنگ پر لگا دیا گیا ہے ۔ جھوٹ بول کر ہماری حکومت پر طالبان کی آبادکاری کا الزام لگایا گیا ۔ ہماری حکومت کے دوران بلکہ حکومت خاتمے کے ایک سال بعد تک بھی دہشتگردی نے سر نہیں اٹھایا تھا یہ سب کچھ انھی کا قصور ہے جو بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار ہیں ۔ ان سب تجربات کی بدولت پاکستان میں معیشت کا حال بدترین ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مزید 1 کروڑ 30 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں ۔ عدلیہ ، نیب ، ایف آئی اے ، پولیس سمیت ہر ادارہ تحریک انصاف کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جسکی وجہ سے ملک کا سیاسی اور معاشی نظام درہم برہم ہے اور عدم استحکام عروج پر ہے۔جب تک سیاسی عدم استحکام رہے گا گروتھ ریٹ صفر ہو گا۔ ‏یہ سب دس سالہ آمریت کے منصوبے کو مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا ہے ۔ جو بھی اس لاقانونیت کا ساتھ دیتا ہے اسکی اربوں کی چوری معاف کر دی جاتی ہے ۔  پاکستان کی تاریخ میں کسی لیڈر پر 280 کیسز نہیں بنائے گئے ۔ ایسا صرف جنرل یحیی نے مجیب الرحمن کے ساتھ کیا تھا جو میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے غیرسنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی سے میری میٹنگ تک نہیں کروائی گئی- ایسا لگتا ہے جیسے مذاکرات کا مقصد صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے تاکہ 26 نومبر کے اسلام آباد قتل عام پر عوامی ری ایکشن کو کم کیا جا سکے۔ 26 نومبر کو پرامن شہریوں کا قتل عام کیا گیا ، انکو سیدھی گولیاں مار کر ڈی چوک میں خون سے نہلایا گیا، ہمارے کئی افراد اب تک لاپتہ ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا واقعہ ہونے کے بعد گولیاں چلانے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے لیکن یہ حکومت ابھی تک ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں کر پائی۔ جوڈیشل کمیشن کی حیثیت تھرڈ امپائر کی ہوتی ہے اور صرف ایک غیرجانبدار کمیشن ہی 26 نومبر اور 9 مئی کے شہدا کو انصاف دلوا سکتا ہے اگر اس قتل عام کو دبا دیا گیا تو پاکستان میں کسی کا جان و مال محفوظ نہیں ہو گا۔ میرا واضح پیغام ہے کہ اگر مذاکراتی عمل کو لے کر حکومت یونہی غیر سنجیدہ رہی اور جوڈیشل کمیشن نہ بنایا تو مذاکرات کو اگلی میٹنگ کے بعد روک دیا جائے۔ نو مئی کا فالس فلیگ آپریشن بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہی کیا گیا تھا۔ اس روز چوکیوں سے فوج اور پولیس ہٹا کر خود ہی آگ لگائی گئی اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی چرا لی گئی ۔ ہم ان دونوں واقعات کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں بارہا سپریم کورٹ سے بھی مطالبہ کیا ہے۔ تین سال سے اس ملک میں آئین و قانون اور انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے۔ لوگوں کے گھروں کا تقدس پامال کر کہ ان کو اغوا کیا جا رہا ہے، تشدد اور جبر کیا جا رہا ،انکے گھر اور کاروبار تباہ کیے گئے، میرا اپنا گھر دو مرتبہ توڑا گیا۔ ہم نے اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔ یہ کیس جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں پانچ ججز نے سنا مگر ڈیڑھ سال سے اسکا فیصلہ محفوظ ہے اور سنایا نہیں گیا۔ پھر ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور سپریم کورٹ میں قاضی سے بھی رجوع کیا لیکن ان دونوں نے ہی اسٹیبلشمنٹ کے opening batsman کا کردار ادا کیا۔ ہمارے جو بے قصور لوگ ملٹری تحویل میں رہے ان پر شدید ترین ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا۔ میری اطلاع کے مطابق 3 لڑکوں نے دوران حراست خود کشی کی کوشش کی۔ سمیع وزیر کی حالت اس تشدد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس سے پہلے جو کچھ تحریک انصاف کے رہنماؤں شہباز گل ، اعظم سواتی سیمت دیگر کے ساتھ کیا گیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ظلِ شاہ کو بے دردی سے قتل کیا گیا ، انتظار پنجھوتہ سے جانوروں کی طرح سلوک کیا گیا۔ یہ کونسا اصول ہے کہ جو تحریک انصاف چھوڑ دے وہ 9 مئی کے الزام سے بری ہے اور جو نہ چھوڑے اس پر ہر قسم کا تشدد اور دباو جائز ہے؟ ہمیں پاکستانی نظام عدل سے بار بار رجوع کرنے کے باوجود بھی انصاف نہیں مل سکا جسکے بعد ہمارے پاس بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔ پاکستان کی حکومت انسانی حقوق کو لے کر بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پابند ہے میں نے وکلا کو ہدایت کی ہے ان معاملات کو عالمی فورمز پر اٹھایا جائے اور پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی آواز دنیا تک پہنچائی جائے ۔ میرا اوور سیز پاکستانیوں کو بھی یہی پیغام ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا خاتمہ کر کہ جنگل کا قانون نافذ کر دیا گیا ہے اسلیے آپ کی جانب سے ترسیلات زر کا بائیکاٹ بہت اہم ہے ۔ پاکستان میں مقیم آپ کے پیاروں کو بھی وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو آپ کو بیرون ممالک میں حاصل ہیں۔ جب تمام ایجنسیوں کو ایک سیاسی جماعت کو کچلنے پر لگا دیا جائے گا پھر دہشتگردوں سے کون لڑے گا ؟ یہی ریمارکس سپریم کورٹ کے ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مندوخیل نے بھی دیے کہ خفیہ اداروں کو سیاسی انجینئرنگ پر لگا دیا گیا ہے ۔ جھوٹ بول کر ہماری حکومت پر طالبان کی آبادکاری کا الزام لگایا گیا ۔ ہماری حکومت کے دوران بلکہ حکومت خاتمے کے ایک سال بعد تک بھی دہشتگردی نے سر نہیں اٹھایا تھا یہ سب کچھ انھی کا قصور ہے جو بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار ہیں ۔ ان سب تجربات کی بدولت پاکستان میں معیشت کا حال بدترین ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مزید 1 کروڑ 30 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں ۔ عدلیہ ، نیب ، ایف آئی اے ، پولیس سمیت ہر ادارہ تحریک انصاف کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جسکی وجہ سے ملک کا سیاسی اور معاشی نظام درہم برہم ہے اور عدم استحکام عروج پر ہے۔جب تک سیاسی عدم استحکام رہے گا گروتھ ریٹ صفر ہو گا۔ ‏یہ سب دس سالہ آمریت کے منصوبے کو مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا ہے ۔ جو بھی اس لاقانونیت کا ساتھ دیتا ہے اسکی اربوں کی چوری معاف کر دی جاتی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی لیڈر پر 280 کیسز نہیں بنائے گئے ۔ ایسا صرف جنرل یحیی نے مجیب الرحمن کے ساتھ کیا تھا جو میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
586.8k
28.01%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: معاشرے میں خوشحالی کا دارومدار انصاف اور انسانیت کے نظام کی موجودگی پر ہے۔
معاشرے میں خوشحالی کا دارومدار انصاف اور انسانیت کے نظام کی موجودگی پر ہے۔
649.5k
34.03%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: آج 26 نومبر کو چھ ہفتے ہو گئے ہیں ہمارے کئی لوگ ابھی تک گمشدہ ہیں ۔ یہ لوگ ڈی چوک اسلام آباد سے غائب کیے گئے ہیں کسی قبائلی علاقے سے نہیں۔ حکومت ان کو کسی عدالت میں پیش کر رہی ہے نہ ہی ان کو تلاش کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات اور مذاکرات کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے۔ ہم نے آج گمشدہ افراد کے معاملے پر کمیٹی بنا دی ہے جس کی  سربراہی سینئیر وکیل قاضی انور کریں گے-  ہم پر زور مطالبہ کر رہے ہیں کہ 26 نومبر کو جو ہمارے لوگوں پر سیدھی گولیاں ماری گئیں ؛ 64 لوگوں کو زخمی اور 14 لوگوں کو شہید کیا گیا انکے قتل عام کی شفاف تحقیقات کی جائیں ۔ یہاں تحقیقات تو کیا ہونی ہیں الٹا انہی مظلوم افراد کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کوٹلی ستیاں سے ہمارے 17 سالہ کارکن انیس شہزاد ستی کو شہید کیا گیا ۔ پھر اسکے غمزدہ خاندان کو ہراساں کیا گیا کہ وہ اپنا کیس واپس لیں۔ یہی سب کچھ نو مئی کو بھی کیا گیا تھا ۔جب ہم پر ہی گولیاں چلائی گئی تھیں ہمارے 16 لوگوں کو شہید کیا گیا اور پھر پر امن نہتی عوام کو ہی دہشتگرد بنا دیا گیا ۔ انکے گھروں کا تقدس پامال کیا گیا ؛ بے قصور افراد کو جیلوں میں ڈال کر انکی زندگیاں برباد کی گئیں۔ میرے گھر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ۔ 9 مئی اور 26 نومبر پر شفاف جوڈیشل کمیشن بننا ناگزیر ہے۔ میں  اس واقعے کو تب تک بھولنے نہیں دوں گا جب تک مظلوموں کو انصاف نہ مل جائے۔   میرے مطالبات جائز اور معقول ہیں لیکن حکومت ان پر سنجیدہ نہیں ۔ مجھے میری جماعت کے افرد سے ملوایا نہیں جاتا جو کہ میرا قانونی حق ہے ۔ اگر حکومت نے اگلی نشست  میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہ کی تو ہم مذاکرات کے عمل کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔  بشریٰ بی بی کے خلاف کمپئین کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں ۔ بشریٰ بی بی جو کر رہی ہیں وہ میری ذات کے لیے کر رہی ہیں- سنجگانی  جیسے شوشے چھوڑ کر اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جاتی ہے ۔ ڈی چوک میں کارکنان کے ہمراہ پہنچ جانا بشری بی بی کی کامیابی ہے جس پر انکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔  میں اپنی پارٹی کے لوگوں کو تلقین کرتا ہوں کہ ہمارے مسنگ پرسنز کا معاملہ ہر سطح پر اٹھائیں ۔   پاکستان میں آمریت کا دس سالہ پلان لایا گیا تھا جس میں سے دو سال گزر چکے ہیں یہاں جو جج یا پولیس والا ظلم کا حصہ بنتا ہے اسکو ترقی دے دی جاتی ہے ہمایوں دلاور نے غیر قانونی فیصلہ دیا تو اسکو ترقی دے دی گئی دوسری جانب راولپنڈی ؛ سرگودھا کے ججز نے انصاف پر مبنی فیصلے دیے تو انکو گھر بھیج دیا گیا۔ ایسا کر کے ملک میں میرٹ اور قانون کی حکمرانی کو قتل کر دیا گیا ہے- ملک میں موجود اس فسطائی نظام کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ معاشی خوشحالی کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہے اور سرمایہ کاری ملک میں اداروں کے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کئے بغیر ممکن نہیں۔ ملک میں بڑھتی دہشتگردی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اور افسوسناک امر تو یہ کہ اس کے تدارک کے ذمہ داران کی ساری توانائیاں اور وسائل  ہماری جماعت کو دیوار سے لگانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنی ذاتی اناؤں اور وقتی مفادات سے ہٹ کر ملکی ترقی اور قوم کی خوشحالی کا سوچا جائے۔
آج 26 نومبر کو چھ ہفتے ہو گئے ہیں ہمارے کئی لوگ ابھی تک گمشدہ ہیں ۔ یہ لوگ ڈی چوک اسلام آباد سے غائب کیے گئے ہیں کسی قبائلی علاقے سے نہیں۔ حکومت ان کو کسی عدالت میں پیش کر رہی ہے نہ ہی ان کو تلاش کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات اور مذاکرات کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے۔ ہم نے آج گمشدہ افراد کے معاملے پر کمیٹی بنا دی ہے جس کی سربراہی سینئیر وکیل قاضی انور کریں گے- ہم پر زور مطالبہ کر رہے ہیں کہ 26 نومبر کو جو ہمارے لوگوں پر سیدھی گولیاں ماری گئیں ؛ 64 لوگوں کو زخمی اور 14 لوگوں کو شہید کیا گیا انکے قتل عام کی شفاف تحقیقات کی جائیں ۔ یہاں تحقیقات تو کیا ہونی ہیں الٹا انہی مظلوم افراد کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کوٹلی ستیاں سے ہمارے 17 سالہ کارکن انیس شہزاد ستی کو شہید کیا گیا ۔ پھر اسکے غمزدہ خاندان کو ہراساں کیا گیا کہ وہ اپنا کیس واپس لیں۔ یہی سب کچھ نو مئی کو بھی کیا گیا تھا ۔جب ہم پر ہی گولیاں چلائی گئی تھیں ہمارے 16 لوگوں کو شہید کیا گیا اور پھر پر امن نہتی عوام کو ہی دہشتگرد بنا دیا گیا ۔ انکے گھروں کا تقدس پامال کیا گیا ؛ بے قصور افراد کو جیلوں میں ڈال کر انکی زندگیاں برباد کی گئیں۔ میرے گھر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ۔ 9 مئی اور 26 نومبر پر شفاف جوڈیشل کمیشن بننا ناگزیر ہے۔ میں اس واقعے کو تب تک بھولنے نہیں دوں گا جب تک مظلوموں کو انصاف نہ مل جائے۔ میرے مطالبات جائز اور معقول ہیں لیکن حکومت ان پر سنجیدہ نہیں ۔ مجھے میری جماعت کے افرد سے ملوایا نہیں جاتا جو کہ میرا قانونی حق ہے ۔ اگر حکومت نے اگلی نشست میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہ کی تو ہم مذاکرات کے عمل کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔ بشریٰ بی بی کے خلاف کمپئین کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں ۔ بشریٰ بی بی جو کر رہی ہیں وہ میری ذات کے لیے کر رہی ہیں- سنجگانی جیسے شوشے چھوڑ کر اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جاتی ہے ۔ ڈی چوک میں کارکنان کے ہمراہ پہنچ جانا بشری بی بی کی کامیابی ہے جس پر انکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ میں اپنی پارٹی کے لوگوں کو تلقین کرتا ہوں کہ ہمارے مسنگ پرسنز کا معاملہ ہر سطح پر اٹھائیں ۔ پاکستان میں آمریت کا دس سالہ پلان لایا گیا تھا جس میں سے دو سال گزر چکے ہیں یہاں جو جج یا پولیس والا ظلم کا حصہ بنتا ہے اسکو ترقی دے دی جاتی ہے ہمایوں دلاور نے غیر قانونی فیصلہ دیا تو اسکو ترقی دے دی گئی دوسری جانب راولپنڈی ؛ سرگودھا کے ججز نے انصاف پر مبنی فیصلے دیے تو انکو گھر بھیج دیا گیا۔ ایسا کر کے ملک میں میرٹ اور قانون کی حکمرانی کو قتل کر دیا گیا ہے- ملک میں موجود اس فسطائی نظام کے ہوتے ہوئے معاشی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ معاشی خوشحالی کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہے اور سرمایہ کاری ملک میں اداروں کے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کئے بغیر ممکن نہیں۔ ملک میں بڑھتی دہشتگردی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اور افسوسناک امر تو یہ کہ اس کے تدارک کے ذمہ داران کی ساری توانائیاں اور وسائل ہماری جماعت کو دیوار سے لگانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنی ذاتی اناؤں اور وقتی مفادات سے ہٹ کر ملکی ترقی اور قوم کی خوشحالی کا سوچا جائے۔
492.5k
30.02%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: “یحییٰ خان پارٹ 2 کے اقتدار کو طول دینے اور 9 مئی کے واقعات کو چھپانے کے لیے قاضی فائز عیسیٰ نے 9 مئی فالس فلیگ آپریشن اور 8 فروری انتخابی دھاندلی سے متعلق ہماری پٹیشن نہیں سنی۔ تحریک انصاف کے ساتھ تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔ ظلِ شاہ سے لے کر سمیع وزیر تک ہمارے ساتھ ظلم و جبر کی ایک طویل داستان ہے۔ ہمیں ملک بھر میں کسی بھی عدالت سے انصاف نہیں مل سکا۔ عدالتیں مفلوج ہیں،آج بھی ان کو یہی خوف ہے کہ کوئی جج میرٹ پر ہماری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی درخواستیں نہ سن لے اور کہیں ہمیں انصاف نہ مل جائے۔ یہ جو بھی کر لیں خدائی قانون ہے کہ ظلم و جبر کا دور زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔  میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے میری اپیل پر 7200 کے قریب غریب اور مستحق پاکستانیوں کو سعودی عرب کی جیلوں سے رہا کیا۔ میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ اپنے عہدے/اثرورسوخ سے عام پاکستانیوں کی زندگی سنوارنے کا اقدام کر سکوں۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد بھی یہی تھا اور میں تا دم اس کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گا- مجھے یا بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ سے کوئی مالی فائدہ نہیں ہے۔ ملک ریاض اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں واحد وزیراعظم تھا جس نے ان سے اپنے ذاتی یا مالی فائدے کے لیے کوئی چیز طلب نہیں کی۔ زرداری کی طرح بلاول ہاؤس نہیں بنوایا اور نا ہی شریف خاندان کی طرح ون ہائیڈ پارک دگنی قیمت پر بیچا ہے۔ میرے لیے پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل اہم تھا اور اسی کے لیے القادر یونیورسٹی قائم کی۔  انہوں نے مجھے تکلیف دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ہے۔ بشریٰ بی بی کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا کمپین کی سختی سے مذمت کرتا ہوں۔اپوزیشن پچھلے چھ سال سے بشریٰ بی بی پر کیچڑ اچھال رہی ہے تا کہ کسی طرح سے میری کردار کشی کی جا سکے۔جو ہمارے خیر خواہ ہوتے ہوئے ان کے پروپگنڈے کا حصہ بنتے ہیں وہ ہمارے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن کے مشن کی تکمیل کر رہے ہیں۔“
“یحییٰ خان پارٹ 2 کے اقتدار کو طول دینے اور 9 مئی کے واقعات کو چھپانے کے لیے قاضی فائز عیسیٰ نے 9 مئی فالس فلیگ آپریشن اور 8 فروری انتخابی دھاندلی سے متعلق ہماری پٹیشن نہیں سنی۔ تحریک انصاف کے ساتھ تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔ ظلِ شاہ سے لے کر سمیع وزیر تک ہمارے ساتھ ظلم و جبر کی ایک طویل داستان ہے۔ ہمیں ملک بھر میں کسی بھی عدالت سے انصاف نہیں مل سکا۔ عدالتیں مفلوج ہیں،آج بھی ان کو یہی خوف ہے کہ کوئی جج میرٹ پر ہماری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی درخواستیں نہ سن لے اور کہیں ہمیں انصاف نہ مل جائے۔ یہ جو بھی کر لیں خدائی قانون ہے کہ ظلم و جبر کا دور زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے میری اپیل پر 7200 کے قریب غریب اور مستحق پاکستانیوں کو سعودی عرب کی جیلوں سے رہا کیا۔ میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ اپنے عہدے/اثرورسوخ سے عام پاکستانیوں کی زندگی سنوارنے کا اقدام کر سکوں۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد بھی یہی تھا اور میں تا دم اس کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گا- مجھے یا بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ سے کوئی مالی فائدہ نہیں ہے۔ ملک ریاض اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں واحد وزیراعظم تھا جس نے ان سے اپنے ذاتی یا مالی فائدے کے لیے کوئی چیز طلب نہیں کی۔ زرداری کی طرح بلاول ہاؤس نہیں بنوایا اور نا ہی شریف خاندان کی طرح ون ہائیڈ پارک دگنی قیمت پر بیچا ہے۔ میرے لیے پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل اہم تھا اور اسی کے لیے القادر یونیورسٹی قائم کی۔ انہوں نے مجھے تکلیف دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ہے۔ بشریٰ بی بی کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا کمپین کی سختی سے مذمت کرتا ہوں۔اپوزیشن پچھلے چھ سال سے بشریٰ بی بی پر کیچڑ اچھال رہی ہے تا کہ کسی طرح سے میری کردار کشی کی جا سکے۔جو ہمارے خیر خواہ ہوتے ہوئے ان کے پروپگنڈے کا حصہ بنتے ہیں وہ ہمارے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن کے مشن کی تکمیل کر رہے ہیں۔“
284.5k
32.33%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: القادر ٹرسٹ کیس کی تفصیلات۔
القادر ٹرسٹ کیس کی تفصیلات۔
896.5k
29.92%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: اردلی حکومت خوف کا شکار ہے، ان کو  مسلسل ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ ان کا پہلا ڈراؤنا خواب ان کے اعصاب پر سوار عمران خان اور اس کی رہائی کا خوف ہے۔ دوسرا ڈراؤنا خواب یہ ہے کہ فارم 47 کا کچا چٹھا نہ کھل جائے۔ ان خوابوں سے گھبرا کر بیدار ہوتے ہی یہ 9 مئی کی گردان کرنے لگتے ہیں۔ اس خوف کی بدولت انھوں نے مجھے ایک ایسے بے ضمیر جج سے سزا دلوائی جس کو خود سپریم کورٹ نے 2004 میں عدالتی خدمات کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔  القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ملک ریاض اور NCA کے معاہدے سے سال پہلے سے چل رہا تھا اور ہمارے دور کی کابینہ کا القادر ٹرسٹ معاملے میں کوئی کردار نہیں نہ ہی یہ رقم ہم نے سپریم کورٹ منتقل کروائی۔ کابینہ نے صرف Non Disclosure Agreement کی Confidentiality / رازداری کی منظوری دی تاکہ اتنی بڑی رقم / فارن ایکسچینج ایک ساتھ پاکستان آ جائے۔ نام نہاد  "بند لفافے"  کو حکومت اور تحقیقاتی ادارے کھول سکتے ہیں اسے کھولیں اس میں کیا لکھا ہے عوام کو بتائیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ ذلفی بخاری نے اس کیس میں وڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی درخواست کی تھی کیونکہ اگر وہ پاکستان آتے تو ان کو عدالت تحفظ نہ دیتی اور باقیوں کی طرح انھیں بھی گرفتار یا اغوا کر کے تشدد کیا جاتا۔ ذلفی بخاری کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ مار کر توڑ پھوڑ کی گئی، خاندان کو ہراس کیا گیا اور ڈیلیں آفر کی گئیں۔ شہزاد اکبر نے بھی کئی مرتبہ گواہ بننے کی پیشکش کی، مگر چونکہ جعلی حکومت اس مقدمے میں مجھے سزا دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لیے ان کو وڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ شہزاد اکبر کے بھائی کو بھی اغوا کیا گیا۔ القادر ٹرسٹ ایک فلاحی ادارہ ہے جس کے ذریعے غریب طلباء کو سیرت النبی ﷺ سے روشناس کروایا جا رہا ہے۔ اس سے مجھے کوئی ذاتی فائدہ ہے نہ ہی میری اہلیہ کو۔ پہلے بھی ساڑھے نو ماہ بشرٰی بیگم کو قید میں رکھا گیا اور میرا ساتھ دینے کی سزا دی گئی۔ گھریلو خواتین کو سیاست میں گھسیٹنا شرمناک ہے اور ہماری روایات کے منافی ہے۔ بشرٰی بیگم مضبوط اعصاب کی حامل خاتون ہیں ، وہ میری کمزوری نہیں طاقت ہیں۔  یہ مجھ پر جتنے مرضی مقدمات بنائیں میں نواز شریف یا زرداری کی طرح ڈیل کے ذریعے نہیں بلکہ عدالتوں کا سامنا کر کے انصاف کی طاقت سے جیل سے باہر آؤں گا۔ ان سے ڈیل پر میں جیل میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرے مقدمات یا رہائی کا حکومت یا کسی سے بھی ہونے والے مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذاکرات کا عمل اگر سبوتاژ ہوا تو اس کی وجہ حکومت کی غیر سنجیدگی اور جوڈیشل کمیشن کا قیام نہ کرنا ہو گا۔ ہمارے جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کی طرف سے ہم پر دباؤ ہے وہ انصاف کے متلاشی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بغیر مذاکرات کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر کو ہدایت کرتا ہوں کہ چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ  امین الدین خان کو انسانی حقوق سے متعلق ہمارے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سننے کے لیے خط لکھیں اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اس متعلق خط تحریر کریں۔ علی امین گنڈا پور ایپکس کمیٹی کو خط لکھ کر شہباز شریف کے لگائے بھونڈے الزامات کا جواب دے۔  ہم کسی سے کوئی رعایت نہیں مانگ رہے صرف قانون کے مطابق انصاف مانگ رہے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کا جو حال ہو چکا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ سپریم کورٹ میں آج جو ہوا وہ اسی ترمیم کا نتیجہ ہے۔ نامکمل اسمبلیوں سے ہونے  والی قانون سازی بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ ہم عدلیہ پر دباؤ اور ان کے احکامات ہوا میں اڑانے کی مذمت کرتے ہیں۔ جس ملک میں نظام انصاف ہی زنجیروں میں جکڑا ہو گا وہاں کسی اور کو کیا ہی آزادی ملے گی۔
اردلی حکومت خوف کا شکار ہے، ان کو مسلسل ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ ان کا پہلا ڈراؤنا خواب ان کے اعصاب پر سوار عمران خان اور اس کی رہائی کا خوف ہے۔ دوسرا ڈراؤنا خواب یہ ہے کہ فارم 47 کا کچا چٹھا نہ کھل جائے۔ ان خوابوں سے گھبرا کر بیدار ہوتے ہی یہ 9 مئی کی گردان کرنے لگتے ہیں۔ اس خوف کی بدولت انھوں نے مجھے ایک ایسے بے ضمیر جج سے سزا دلوائی جس کو خود سپریم کورٹ نے 2004 میں عدالتی خدمات کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔ القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ملک ریاض اور NCA کے معاہدے سے سال پہلے سے چل رہا تھا اور ہمارے دور کی کابینہ کا القادر ٹرسٹ معاملے میں کوئی کردار نہیں نہ ہی یہ رقم ہم نے سپریم کورٹ منتقل کروائی۔ کابینہ نے صرف Non Disclosure Agreement کی Confidentiality / رازداری کی منظوری دی تاکہ اتنی بڑی رقم / فارن ایکسچینج ایک ساتھ پاکستان آ جائے۔ نام نہاد "بند لفافے" کو حکومت اور تحقیقاتی ادارے کھول سکتے ہیں اسے کھولیں اس میں کیا لکھا ہے عوام کو بتائیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ ذلفی بخاری نے اس کیس میں وڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی درخواست کی تھی کیونکہ اگر وہ پاکستان آتے تو ان کو عدالت تحفظ نہ دیتی اور باقیوں کی طرح انھیں بھی گرفتار یا اغوا کر کے تشدد کیا جاتا۔ ذلفی بخاری کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ مار کر توڑ پھوڑ کی گئی، خاندان کو ہراس کیا گیا اور ڈیلیں آفر کی گئیں۔ شہزاد اکبر نے بھی کئی مرتبہ گواہ بننے کی پیشکش کی، مگر چونکہ جعلی حکومت اس مقدمے میں مجھے سزا دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لیے ان کو وڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ شہزاد اکبر کے بھائی کو بھی اغوا کیا گیا۔ القادر ٹرسٹ ایک فلاحی ادارہ ہے جس کے ذریعے غریب طلباء کو سیرت النبی ﷺ سے روشناس کروایا جا رہا ہے۔ اس سے مجھے کوئی ذاتی فائدہ ہے نہ ہی میری اہلیہ کو۔ پہلے بھی ساڑھے نو ماہ بشرٰی بیگم کو قید میں رکھا گیا اور میرا ساتھ دینے کی سزا دی گئی۔ گھریلو خواتین کو سیاست میں گھسیٹنا شرمناک ہے اور ہماری روایات کے منافی ہے۔ بشرٰی بیگم مضبوط اعصاب کی حامل خاتون ہیں ، وہ میری کمزوری نہیں طاقت ہیں۔ یہ مجھ پر جتنے مرضی مقدمات بنائیں میں نواز شریف یا زرداری کی طرح ڈیل کے ذریعے نہیں بلکہ عدالتوں کا سامنا کر کے انصاف کی طاقت سے جیل سے باہر آؤں گا۔ ان سے ڈیل پر میں جیل میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرے مقدمات یا رہائی کا حکومت یا کسی سے بھی ہونے والے مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذاکرات کا عمل اگر سبوتاژ ہوا تو اس کی وجہ حکومت کی غیر سنجیدگی اور جوڈیشل کمیشن کا قیام نہ کرنا ہو گا۔ ہمارے جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کی طرف سے ہم پر دباؤ ہے وہ انصاف کے متلاشی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بغیر مذاکرات کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر کو ہدایت کرتا ہوں کہ چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ امین الدین خان کو انسانی حقوق سے متعلق ہمارے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سننے کے لیے خط لکھیں اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اس متعلق خط تحریر کریں۔ علی امین گنڈا پور ایپکس کمیٹی کو خط لکھ کر شہباز شریف کے لگائے بھونڈے الزامات کا جواب دے۔ ہم کسی سے کوئی رعایت نہیں مانگ رہے صرف قانون کے مطابق انصاف مانگ رہے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کا جو حال ہو چکا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ سپریم کورٹ میں آج جو ہوا وہ اسی ترمیم کا نتیجہ ہے۔ نامکمل اسمبلیوں سے ہونے والی قانون سازی بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ ہم عدلیہ پر دباؤ اور ان کے احکامات ہوا میں اڑانے کی مذمت کرتے ہیں۔ جس ملک میں نظام انصاف ہی زنجیروں میں جکڑا ہو گا وہاں کسی اور کو کیا ہی آزادی ملے گی۔
421.4k
31.08%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل میں رہنا پڑا میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔
میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل میں رہنا پڑا میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔
2.2m
29.84%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: گھریلو خواتین کو سیاست میں گھسیٹ کر ان کا وقار مجروح کرنا ہماری معاشرتی ، اخلاقی اور مذہبی روایات کے منافی ہے۔ بشرٰی بیگم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ محض مجھے دباؤ میں لانے کے لیے انہیں نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔  بشرٰی بیگم نے صرف میری اہلیہ ہونے کی بدولت صعوبتیں برداشت کیں۔ خواتین کو سیاست میں گھسیٹ کر نشانہ بنانا اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر سے واضح کر دوں کہ مجھ سمیت تحریک انصاف کے تمام کارکنان جیلیں کاٹنے کو یحیٰی خان پارٹ ٹو کی آمریت تسلیم کرنے پر ترجیح دیں گے۔  میں حقیقی آزادی کی جدوجہد پر کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا چاہے یہ مجھ پر کتنا ہی دباؤ بڑھائیں۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں واضح درج ہے کہ یحیٰی خان نے اپنی کرسی بچانے کے لیے ملک دو لخت کیا۔ آج بھی یحیٰی خان ٹو یہی کھیل کھیل رہا ہے۔   جمہوریت کے نام پر پس پردہ آمریت میں پاکستان میں انسانی حقوق پامال ہیں ۔ ملٹری حراست میں قید افراد پر بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا ہے اور اب بھی زیر حراست افراد سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں جو کہ انسانی حقوق اور  آئین کے سخت منافی ہے ۔ ہمارے کارکنان اور سپورٹران کے گھروں پر صرف پنجاب میں ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں چھاپے مارے گئے، ہزاروں بے گناہ کارکنان کو گرفتار کیا گیا ، عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اصولوں اور نظریات پر سمجھوتا وہ کرتے ہیں جو خوف کے سائے تلے رہتے ہیں۔ مجھے اللہ کی ذات کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں۔ ایمان کی طاقت انسان کو جھکنے نہیں دیتی۔ جھکتے صرف وہ لوگ ہیں جن میں ایمان کی کمی ہو۔ دنیا کے عظیم ترین لیڈر حضرت محمد ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ سے ہمیں عملاً یہ سبق دیا ہے کہ جس قدر ہی مصائب اور مشکلات کیوں نہ آ جائیں، حق اور اپنے مقصد کی ترویج کے لیے ڈٹ جانا چاہیے اور غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے۔ تحریک انصاف کی جدوجہد کا مقصد جمہوریت کی سربلندی،آئین وقانون کی حکمرانی،آزاد عدلیہ و میڈیااور بنیادی شہری حقوق کا تحفظ ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوں گے کیونکہ یہی حق ہے۔ میں آخری سانس تک اس کے لیے جدوجہد کروں گا۔ میری قوم نے بھی پیچھے نہیں ہٹنا۔ القادر ٹرسٹ کے فیصلے نے دنیا میں پاکستان کے نظام عدل کا مذاق بنوایا ہے ۔ بکاؤ میڈیا پر اسے ایک sham ٹرسٹ کا لقب دیا گیا جو کہ حقائق کو بھونڈے انداز میں مسخ کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ القادر ٹرسٹ نہ تو بلاول ہاؤس ہے اور نہ ایون فیلڈ ہاؤس ہے یہ طلبا کو سیرت النبی ﷺ سے روشناس کروانے کی ایک درسگاہ ہے۔ صاف نظر آتا  ہے کہ ملک ریاض کو یہاں پر دھمکایا گیا جس کے پیش نظر ان کے بیٹے نے لندن میں 9 ارب کی پراپرٹی 18 ارب میں خریدی ۔پراسیکیوشن آج تک یہ ثابت نہیں کر سکی کہ یہ منی لانڈرنگ ہے۔ جبکہ میرے اور میری اہلیہ پر فرد جرم عائد کی گئی جنہوں نے ایک روپے کا مالی فائدہ نہیں لیا۔ اگر مجھ پر پبلک آفس ہولڈر ہونے کی بنا پر الزام لگایا گیا تو بشری بی بی جو ایک گھریلو خاتون ہیں انہیں کس کی ایما پر مجرم قرار دیا گیا؟ اس فیصلے کا ایک اور مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ القادر یونیورسٹی کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ کیا فرمائشی احمقوں کے اس ٹولے کو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ حکومتی پراپرٹی نہیں ہے؟ ٹرسٹ کی پراپرٹی کو حکومت کس قانون کے تحت اپنی تحویل میں لے سکتی ہے؟ نام نہاد   "بند لفافے"  کو حکومت اور تحقیقاتی ادارے کھول سکتے ہیں اسے کھولیں اس میں کیا لکھا ہے عوام کو بتائیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ لیکن جب مقدمے کا مقصد محض  پروپگنڈا کر کے صبح شام جھوٹ بولنا ہو تو کوئی چیز پبلک نہیں ہو سکتی۔  آٹھ فروری کو پورے ملک میں یوم سیاہ منائیں گے۔ اس دن پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ بری طرح کھلواڑ کیا گیا۔ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا مار کر فارم 47 کی جعلی حکومت مسلط کر دی گئی۔ اس حوالے سے  علی امین گنڈاپور کو ہدایت کرتا ہوں  کہ 8 فروری کو پورے کے پی سے قافلے پشاور جمع ہو کر  احتجاج کریں۔ اپنی وکلاء برادری بشمول انصاف لائرز فارم اور دیگر ونگز کو بھی اس دن بھرپور احتجاج کی ہدایت دیتا ہوں۔ تمام صوبوں کے اراکین اسمبلی اور پارٹی عہدے داران کے ساتھ ساتھ ہر مکتبہ فکر کے لوگ جمہور کی توہین کے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر بھرپور طریقے سے منائیں۔ ہم جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ایک جائز مطالبہ کر رہے ہیں ۔ شفاف جوڈیشل کمیشن کا قیام حکومت اس لیے نہیں چاہتی کیونکہ وہ 9 مئی اور 26 نومبر میں خود ملوث ہے ۔  جب تک ان واقعات کے مجرمان کو سزا نہیں مل جاتی ملک میں استحکام آنا نا ممکن ہے۔
گھریلو خواتین کو سیاست میں گھسیٹ کر ان کا وقار مجروح کرنا ہماری معاشرتی ، اخلاقی اور مذہبی روایات کے منافی ہے۔ بشرٰی بیگم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ محض مجھے دباؤ میں لانے کے لیے انہیں نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ بشرٰی بیگم نے صرف میری اہلیہ ہونے کی بدولت صعوبتیں برداشت کیں۔ خواتین کو سیاست میں گھسیٹ کر نشانہ بنانا اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر سے واضح کر دوں کہ مجھ سمیت تحریک انصاف کے تمام کارکنان جیلیں کاٹنے کو یحیٰی خان پارٹ ٹو کی آمریت تسلیم کرنے پر ترجیح دیں گے۔ میں حقیقی آزادی کی جدوجہد پر کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا چاہے یہ مجھ پر کتنا ہی دباؤ بڑھائیں۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں واضح درج ہے کہ یحیٰی خان نے اپنی کرسی بچانے کے لیے ملک دو لخت کیا۔ آج بھی یحیٰی خان ٹو یہی کھیل کھیل رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر پس پردہ آمریت میں پاکستان میں انسانی حقوق پامال ہیں ۔ ملٹری حراست میں قید افراد پر بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا ہے اور اب بھی زیر حراست افراد سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں جو کہ انسانی حقوق اور آئین کے سخت منافی ہے ۔ ہمارے کارکنان اور سپورٹران کے گھروں پر صرف پنجاب میں ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں چھاپے مارے گئے، ہزاروں بے گناہ کارکنان کو گرفتار کیا گیا ، عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اصولوں اور نظریات پر سمجھوتا وہ کرتے ہیں جو خوف کے سائے تلے رہتے ہیں۔ مجھے اللہ کی ذات کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں۔ ایمان کی طاقت انسان کو جھکنے نہیں دیتی۔ جھکتے صرف وہ لوگ ہیں جن میں ایمان کی کمی ہو۔ دنیا کے عظیم ترین لیڈر حضرت محمد ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ سے ہمیں عملاً یہ سبق دیا ہے کہ جس قدر ہی مصائب اور مشکلات کیوں نہ آ جائیں، حق اور اپنے مقصد کی ترویج کے لیے ڈٹ جانا چاہیے اور غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے۔ تحریک انصاف کی جدوجہد کا مقصد جمہوریت کی سربلندی،آئین وقانون کی حکمرانی،آزاد عدلیہ و میڈیااور بنیادی شہری حقوق کا تحفظ ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوں گے کیونکہ یہی حق ہے۔ میں آخری سانس تک اس کے لیے جدوجہد کروں گا۔ میری قوم نے بھی پیچھے نہیں ہٹنا۔ القادر ٹرسٹ کے فیصلے نے دنیا میں پاکستان کے نظام عدل کا مذاق بنوایا ہے ۔ بکاؤ میڈیا پر اسے ایک sham ٹرسٹ کا لقب دیا گیا جو کہ حقائق کو بھونڈے انداز میں مسخ کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ القادر ٹرسٹ نہ تو بلاول ہاؤس ہے اور نہ ایون فیلڈ ہاؤس ہے یہ طلبا کو سیرت النبی ﷺ سے روشناس کروانے کی ایک درسگاہ ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ ملک ریاض کو یہاں پر دھمکایا گیا جس کے پیش نظر ان کے بیٹے نے لندن میں 9 ارب کی پراپرٹی 18 ارب میں خریدی ۔پراسیکیوشن آج تک یہ ثابت نہیں کر سکی کہ یہ منی لانڈرنگ ہے۔ جبکہ میرے اور میری اہلیہ پر فرد جرم عائد کی گئی جنہوں نے ایک روپے کا مالی فائدہ نہیں لیا۔ اگر مجھ پر پبلک آفس ہولڈر ہونے کی بنا پر الزام لگایا گیا تو بشری بی بی جو ایک گھریلو خاتون ہیں انہیں کس کی ایما پر مجرم قرار دیا گیا؟ اس فیصلے کا ایک اور مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ القادر یونیورسٹی کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ کیا فرمائشی احمقوں کے اس ٹولے کو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ حکومتی پراپرٹی نہیں ہے؟ ٹرسٹ کی پراپرٹی کو حکومت کس قانون کے تحت اپنی تحویل میں لے سکتی ہے؟ نام نہاد "بند لفافے" کو حکومت اور تحقیقاتی ادارے کھول سکتے ہیں اسے کھولیں اس میں کیا لکھا ہے عوام کو بتائیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ لیکن جب مقدمے کا مقصد محض پروپگنڈا کر کے صبح شام جھوٹ بولنا ہو تو کوئی چیز پبلک نہیں ہو سکتی۔ آٹھ فروری کو پورے ملک میں یوم سیاہ منائیں گے۔ اس دن پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ بری طرح کھلواڑ کیا گیا۔ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا مار کر فارم 47 کی جعلی حکومت مسلط کر دی گئی۔ اس حوالے سے علی امین گنڈاپور کو ہدایت کرتا ہوں کہ 8 فروری کو پورے کے پی سے قافلے پشاور جمع ہو کر احتجاج کریں۔ اپنی وکلاء برادری بشمول انصاف لائرز فارم اور دیگر ونگز کو بھی اس دن بھرپور احتجاج کی ہدایت دیتا ہوں۔ تمام صوبوں کے اراکین اسمبلی اور پارٹی عہدے داران کے ساتھ ساتھ ہر مکتبہ فکر کے لوگ جمہور کی توہین کے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر بھرپور طریقے سے منائیں۔ ہم جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ایک جائز مطالبہ کر رہے ہیں ۔ شفاف جوڈیشل کمیشن کا قیام حکومت اس لیے نہیں چاہتی کیونکہ وہ 9 مئی اور 26 نومبر میں خود ملوث ہے ۔ جب تک ان واقعات کے مجرمان کو سزا نہیں مل جاتی ملک میں استحکام آنا نا ممکن ہے۔
584.9k
27.94%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ ہمارا عزم حقیقی آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہے، جس کے حصول تک اور آخری گیند تک لڑتے رہیں گے۔ کوئی ڈیل نہیں کروں گا اور تمام جھوٹے کیسز کا سامنا کروں گا۔ میں ایک بار پھر قوم کو کہتا ہوں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھیں۔ پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ یحیٰ خان نے بھی ملک کو تباہ کیا اور آج بھی ڈکٹیٹر اپنی آمریت بچانے کے لیے اور اپنی ذات کے فائدے کے لیے یہ سب کر رہا ہے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ آج القادر ٹرسٹ کے کالے فیصلے کے بعد عدلیہ نے اپنی ساکھ مزید تباہ کر دی ہے۔ جو جج آمریت کو سپورٹ کرتا ہے اور اشاروں پر چلتا ہے اسے نوازا جاتا ہے۔ جن ججز کے نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے بھیجے گئے ان کا واحد میرٹ میرے خلاف فیصلے دینا ہے۔ یہ کیس تو دراصل نواز شریف اور اس کے بیٹے کے خلاف ہونا چاہییے تھا جنہوں نے برطانیہ میں اپنی 9 ارب کی پراپرٹی ملک ریاض کو  18 ارب میں بیچی۔ سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس 9 ارب کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔ قاضی فائز عیسی کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔ القادر یونیورسٹی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ہی عوام کے لیے ایک مفت فلاحی ادارہ ہے جہاں طلبأ سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ القادر یونیورسٹی سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور حکومت کو ایک ٹکے کا بھی نقصان نہیں ہوا۔ القادر ٹرسٹ کی زمین بھی واپس لے لی گئی جس سے صرف غریب طلبأ کا نقصان ہو گا جو سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ القادر ٹرسٹ کا ایسا فیصلہ ہے جس کا پہلے ہی سب کو پتہ تھا۔ چاہے فیصلے کی تاخیر ہو یا سزا کی بات سب پہلے ہی میڈیا پر آ جاتا ہے۔ عدالتی تاریخ میں ایسا مذاق کبھی نہیں دیکھا گیا۔ جس نے فیصلہ جج کو لکھ کر بھیجا ہے اسی نے میڈیا کو بھی لیک کیا۔ میری اہلیہ ایک گھریلو خاتون ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بشرٰی بی بی کو صرف اس لیے سزا دی گئی تاکہ مجھے تکلیف پہنچا کر مجھ پر دباؤ ڈالا جائے- ان پر پہلے بھی گھٹیا کیسز بنائے گئے۔ لیکن بشرٰی بی بی نے ہمیشہ اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ میرے کاز کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔  مذاکرات میں اگر 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بددیانت لوگ (cheaters) کبھی نیوٹرل ایمپائرز کو نہیں آنے دیتے۔ حکومت جوڈیشل کمیشن کے  مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔
سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ ہمارا عزم حقیقی آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہے، جس کے حصول تک اور آخری گیند تک لڑتے رہیں گے۔ کوئی ڈیل نہیں کروں گا اور تمام جھوٹے کیسز کا سامنا کروں گا۔ میں ایک بار پھر قوم کو کہتا ہوں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھیں۔ پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ یحیٰ خان نے بھی ملک کو تباہ کیا اور آج بھی ڈکٹیٹر اپنی آمریت بچانے کے لیے اور اپنی ذات کے فائدے کے لیے یہ سب کر رہا ہے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ آج القادر ٹرسٹ کے کالے فیصلے کے بعد عدلیہ نے اپنی ساکھ مزید تباہ کر دی ہے۔ جو جج آمریت کو سپورٹ کرتا ہے اور اشاروں پر چلتا ہے اسے نوازا جاتا ہے۔ جن ججز کے نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے بھیجے گئے ان کا واحد میرٹ میرے خلاف فیصلے دینا ہے۔ یہ کیس تو دراصل نواز شریف اور اس کے بیٹے کے خلاف ہونا چاہییے تھا جنہوں نے برطانیہ میں اپنی 9 ارب کی پراپرٹی ملک ریاض کو 18 ارب میں بیچی۔ سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس 9 ارب کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔ قاضی فائز عیسی کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔ القادر یونیورسٹی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ہی عوام کے لیے ایک مفت فلاحی ادارہ ہے جہاں طلبأ سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ القادر یونیورسٹی سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور حکومت کو ایک ٹکے کا بھی نقصان نہیں ہوا۔ القادر ٹرسٹ کی زمین بھی واپس لے لی گئی جس سے صرف غریب طلبأ کا نقصان ہو گا جو سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ القادر ٹرسٹ کا ایسا فیصلہ ہے جس کا پہلے ہی سب کو پتہ تھا۔ چاہے فیصلے کی تاخیر ہو یا سزا کی بات سب پہلے ہی میڈیا پر آ جاتا ہے۔ عدالتی تاریخ میں ایسا مذاق کبھی نہیں دیکھا گیا۔ جس نے فیصلہ جج کو لکھ کر بھیجا ہے اسی نے میڈیا کو بھی لیک کیا۔ میری اہلیہ ایک گھریلو خاتون ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بشرٰی بی بی کو صرف اس لیے سزا دی گئی تاکہ مجھے تکلیف پہنچا کر مجھ پر دباؤ ڈالا جائے- ان پر پہلے بھی گھٹیا کیسز بنائے گئے۔ لیکن بشرٰی بی بی نے ہمیشہ اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ میرے کاز کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔ مذاکرات میں اگر 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بددیانت لوگ (cheaters) کبھی نیوٹرل ایمپائرز کو نہیں آنے دیتے۔ حکومت جوڈیشل کمیشن کے مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔
1.1m
27.93%
A post by @imrankhan.pti on TikTok caption: “القادر ٹرسٹ کے بھونڈے کیس میں میرے خلاف فیصلہ دے کر پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوائیں گے اور اپنا منہ مزید کالا کریں گے۔ مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا نہ ہی حکومت کو ایک ٹکے کا کوئی نقصان ہوا۔  اس مقدمے میں اصل سزا تو نواز شریف کی بنتی ہے جس نے 9 ارب روپے رشوت کی مد میں حاصل کیے۔ نواز شریف اور زرادری پر مے فئیر اپارٹمنٹس کی طرز کے بے شمار مقدمات ہیں، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے توشہ خانے سے مہنگی ترین گاڑیاں خلاف قانون حاصل کیں ، ان پر موجود تمام مقدمات open and shut ہیں لیکن ان کو معاف کر کے مقدمات کو صرف اس لیے ختم کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے ڈیل قبول کر لی۔ اس کیس میں بھی نواز شریف سے 9 ارب روپے کا حساب مانگنا بنتا ہے ۔  بشریٰ بی بی القادر ٹرسٹ کیس  میں  بالکل بے قصور ہیں اُن کو کیس میں شامل کرنے کا  واحد مقصد مجھ پر دباؤ بڑھانا تھا۔  اِس سے پہلے بھی بشریٰ بی بی کو 9 مہینے بے گناہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی شخص جسے معلوم ہو کہ وہ بد دیانتی کر رہا ہے نیوٹرل امپائر نہیں لگاتا ۔ میں نے کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کا رواج قائم کیا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر ایک جوڈیشل کمیشن کا قیام کیا جائے جو بالکل نیوٹرل ہو اور شفافیت پر مبنی فیصلہ دے۔ حکومت اس مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔ ہم جسٹس امین الدین ( آئینی بینچ کے سربراہ) کو بھی خط تحریر کریں گے کہ ہمارے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پیٹیشن سنیں۔ ہمارے جو بے قصور لوگ ملٹری تحویل میں ہیں ان کو بدترین ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے ۔ ہم نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوم متحدہ کو بھی اس سلسلے میں خط لکھنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی کسی بھی عدالت سے ہمیں انصاف نہیں مل رہا۔ قاضی فائز عیسی اور عامر فاروق تو اسٹیبلشمنٹ کے ہی opening batsman کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اب جو آئینی بینچ بنا ہے وہ بھی ان کی ہی extension ہے۔  پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی معافی نہیں ملتی۔ جنرل پنوشے مغرب کا طاقتور جنرل تھا لیکن انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد کرنے پہ اسکو کڑی سزا دی گئی۔ ہمارے سیاسی ورکروں کو اغوا کر کے تشدد کیا گیا۔ نو مئی میں جس نے تحریکِ انصاف کو خیر آباد کہا اسکو تمام الزامات سے بری الزمہ کر دیا گیا۔  آٹھ فروری کو پاکستانیوں کے حق پر بے شرمی سے ڈاکہ مار کر انتخابات کو چوری کیا گیا اور پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوایا گیا۔ کھلی مینڈیٹ چوری کے بعد پاکستان میں ہر جانب عدم استحکام کے سائے ہیں۔ آٹھ فروری کو پوری قوم یوم سیاہ منائے گی۔ اس دن فارم 47 کی جعلی حکومت قائم کر کے پاکستان میں جمہوریت اور جمہور کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا جسکے بعد ملک میں نہ تو سیاسی استحکام آ سکا ہے نہ ہی معاشی استحکام- ہم نے مذاکرات ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کرنے ہیں- پاکستان کو درپیش سیاسی و معاشی بحرانوں کے خاتمے، دہشت گردی کے مسئلے پہ قابو پانے اور ملک کو درپیش دوسرے سنجیدہ مسائل کے حل کے لئے سیاسی بحران کا خاتمہ ضروری ہے-“
“القادر ٹرسٹ کے بھونڈے کیس میں میرے خلاف فیصلہ دے کر پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوائیں گے اور اپنا منہ مزید کالا کریں گے۔ مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا نہ ہی حکومت کو ایک ٹکے کا کوئی نقصان ہوا۔ اس مقدمے میں اصل سزا تو نواز شریف کی بنتی ہے جس نے 9 ارب روپے رشوت کی مد میں حاصل کیے۔ نواز شریف اور زرادری پر مے فئیر اپارٹمنٹس کی طرز کے بے شمار مقدمات ہیں، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے توشہ خانے سے مہنگی ترین گاڑیاں خلاف قانون حاصل کیں ، ان پر موجود تمام مقدمات open and shut ہیں لیکن ان کو معاف کر کے مقدمات کو صرف اس لیے ختم کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے ڈیل قبول کر لی۔ اس کیس میں بھی نواز شریف سے 9 ارب روپے کا حساب مانگنا بنتا ہے ۔ بشریٰ بی بی القادر ٹرسٹ کیس میں بالکل بے قصور ہیں اُن کو کیس میں شامل کرنے کا واحد مقصد مجھ پر دباؤ بڑھانا تھا۔ اِس سے پہلے بھی بشریٰ بی بی کو 9 مہینے بے گناہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی شخص جسے معلوم ہو کہ وہ بد دیانتی کر رہا ہے نیوٹرل امپائر نہیں لگاتا ۔ میں نے کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کا رواج قائم کیا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر ایک جوڈیشل کمیشن کا قیام کیا جائے جو بالکل نیوٹرل ہو اور شفافیت پر مبنی فیصلہ دے۔ حکومت اس مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔ ہم جسٹس امین الدین ( آئینی بینچ کے سربراہ) کو بھی خط تحریر کریں گے کہ ہمارے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پیٹیشن سنیں۔ ہمارے جو بے قصور لوگ ملٹری تحویل میں ہیں ان کو بدترین ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے ۔ ہم نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوم متحدہ کو بھی اس سلسلے میں خط لکھنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی کسی بھی عدالت سے ہمیں انصاف نہیں مل رہا۔ قاضی فائز عیسی اور عامر فاروق تو اسٹیبلشمنٹ کے ہی opening batsman کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اب جو آئینی بینچ بنا ہے وہ بھی ان کی ہی extension ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی معافی نہیں ملتی۔ جنرل پنوشے مغرب کا طاقتور جنرل تھا لیکن انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد کرنے پہ اسکو کڑی سزا دی گئی۔ ہمارے سیاسی ورکروں کو اغوا کر کے تشدد کیا گیا۔ نو مئی میں جس نے تحریکِ انصاف کو خیر آباد کہا اسکو تمام الزامات سے بری الزمہ کر دیا گیا۔ آٹھ فروری کو پاکستانیوں کے حق پر بے شرمی سے ڈاکہ مار کر انتخابات کو چوری کیا گیا اور پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوایا گیا۔ کھلی مینڈیٹ چوری کے بعد پاکستان میں ہر جانب عدم استحکام کے سائے ہیں۔ آٹھ فروری کو پوری قوم یوم سیاہ منائے گی۔ اس دن فارم 47 کی جعلی حکومت قائم کر کے پاکستان میں جمہوریت اور جمہور کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا جسکے بعد ملک میں نہ تو سیاسی استحکام آ سکا ہے نہ ہی معاشی استحکام- ہم نے مذاکرات ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کرنے ہیں- پاکستان کو درپیش سیاسی و معاشی بحرانوں کے خاتمے، دہشت گردی کے مسئلے پہ قابو پانے اور ملک کو درپیش دوسرے سنجیدہ مسائل کے حل کے لئے سیاسی بحران کا خاتمہ ضروری ہے-“
707.5k
23.46%

start an influencer campaign that drives genuine engagement